احساس کا نور
میں نے چاہا تھا بہاروں میں ملوں میں تم سے
یہ خزاں راہ میں حائل تھی شراروں کو لیے
میں بھی گُم صُم سا رہا وقت کی آواز کے ساتھ
تم بھی آئیں نہ کبھی ساتھ بہاروں کو لیے
سرسراتی رہیں دامن کی ہوائیں یوں ہی
ایک ٹھنڈک سی مِرے دل کو مِلا کرتی رہی
یاد آتی رہی گُلشن کی شب و روز مجھے
اس طرح دل کی کلی روز کِھلا کرتی رہی
شب کو نیندیں مِلیں، دن کو سکونت نہ مِلی
میری حالت بھی وہی حالتِ دیوانہ رہی
بے کلی اور بڑھی، غم کے تھپیڑوں کو لیے
زندگی میری یوں ہی مجھ سے بے گانہ رہی
میرے افسُردہ شب و روز کی بے تابی میں
میری آہوں سے جھلک اُٹھتا ہے احساس کا نُور
سو نہ جائے کسی تاریک شبستاں میں کہیں
وہ تمنّا جو کِیا کرتی ہے بیدار شعور
رحمان جامی
No comments:
Post a Comment