لباسِ ہست بدن سے کہیں اتار آئے
کہاں کے لوگ کہاں زندگی گزار آئے
یہ سوچ کر کہ تجھے چین آ گیا شاید
تیری گلی میں تجھے آج پھر پکار آئے
فریبِ رنگ سے ختمِ خزاں نہیں ممکن
چمن تمام نہ مہکے اگر بہار آئے
ہم ایسے لوگ طلب کے قمار خانے میں
حیات بیچ کے جو کچھ ملا وہ ہار آئے
نکل سکا نہ سروں سے مسافرت کا جنوں
اگرچہ راہ میں کتنے ہی ریگزار آئے
یہ جب کھلا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آنا
بڑے خلوص سے ملنے تمام یار آئے
ہم اپنے آپ سے مخلص نہ ہو سکے عادل
تو کس طرح سے زمانے پہ اعتبار آئے
شہزاد عادل
No comments:
Post a Comment