Monday, 29 May 2023

ہمیں دکھ طوالت سے ملے ہر بار ہی

 ہمیں دکھ طوالت سے ملے

ہر بار ہی

مجبوریوں کے پاؤں تلے آ کر

ہماری خواہشات پچک جاتی ہیں 

کسی گیند کی طرح

ہر نئی صبح

غباروں میں ہوا بھرتے ہوئے 

میں سوچتا ہوں 

سکول میں بچے کیا سیکھنے جاتے ہیں

ماں 

تم تو کہتی ہو 

سارے سبق زندگی سکھاتی ہے

کسی بھاری پتھر سے باندھ کر 

ہمارے خواب دریا برد کر دئیے جاتے ہیں

مگر ہر بار 

بھلا دیا جاتا ہے ہماری آنکھوں کو 

جب کبھی

بھوک کے عالم میں چاند کو دیکھا 

تو وہ مجھے روٹی جیسا دکھا دیا 

آپی

وہ چاکیلیٹ

اس کا ذائقہ بھی باسی روٹی جیسا ہوتا ہے کیا

سوچنا نہیں چاہتا 

مگر کیا کروں انسان ہوں 

عید پر نئے کپڑے پہن کر کھیلنے کودنے کی بجائے 

غبارے بیچنے جاؤں گا میں

اس بار بھی  

بابا! آپ اتنی جلدی کیوں چلے گئے

خیر، غلطی آپ کی نہیں

موت پہ کس کا بس چلتا ہے

دیوار پہ لکھا لفظ بھوک مٹانے سے

بھوک کیوں نہیں مٹ جاتی آخر

اب کی بار 

غبارے میں بجائے ہوا کے بھر دیا جاتا ہے بھوک کو

اور کر دیا جاتا ہے آسمان کے سپرد 

نوکیلی چونچ والے پرندے نے

غبارے کو چونچ ماری 

اور بھوک

آہ میرا سر

اب کی بار


سیمی چوہدری

No comments:

Post a Comment