Friday, 26 May 2023

چاند کی کشتی سجی ہے اور میں

 چاند کی کشتی سجی ہے اور میں

جھیل ہے اک جل پری ہے اور میں

لو دِیے کی سسکیاں لیتی ہوئی

ٹمٹماتی روشنی ہے اور میں

دھوپ قرنوں کی مسافت سے نڈھال

تیز لمحوں کی ندی ہے اور میں

گوش بر آواز ہیں دیوار و در

بے وضاحت نغمگی ہے اور میں

پھر اسی آواز کا موہوم عکس

پھر وہی حرف خفی ہے اور میں

علم کا صحرا ہے تا حد نظر

اک مسلسل تشنگی ہے اور میں

پھر وہی بے نام پاگل خواہشیں

پھر وہی اندھی گلی ہے اور میں

بکھرے بکھرے خواب ہیں میرے لیے

ریزہ ریزہ زندگی ہے اور میں

نیند سے بوجھل ہیں پلکیں رات کی

اک ادھوری ڈائری ہے اور میں


نصرت گوالیاری

No comments:

Post a Comment