چاند کی کشتی سجی ہے اور میں
جھیل ہے اک جل پری ہے اور میں
لو دِیے کی سسکیاں لیتی ہوئی
ٹمٹماتی روشنی ہے اور میں
دھوپ قرنوں کی مسافت سے نڈھال
تیز لمحوں کی ندی ہے اور میں
گوش بر آواز ہیں دیوار و در
بے وضاحت نغمگی ہے اور میں
پھر اسی آواز کا موہوم عکس
پھر وہی حرف خفی ہے اور میں
علم کا صحرا ہے تا حد نظر
اک مسلسل تشنگی ہے اور میں
پھر وہی بے نام پاگل خواہشیں
پھر وہی اندھی گلی ہے اور میں
بکھرے بکھرے خواب ہیں میرے لیے
ریزہ ریزہ زندگی ہے اور میں
نیند سے بوجھل ہیں پلکیں رات کی
اک ادھوری ڈائری ہے اور میں
نصرت گوالیاری
No comments:
Post a Comment