اپنی دہلیز پہ گُل دان برابر رکھے
پھر تِرے آنے کے امکان برابر رکھے
وہ مجھے چھوڑ گیا رنج نہیں، رنج ہے یہ
اُس نے باندھے ہوئے پیمان برابر رکھے
لوگ اب نام و نسب نام و نسب کرتے ہیں
خالقِ ہست نے انسان برابر رکھے
ایک جنگل مِرے اطراف اُگا جاتا ہے
ایک صحرا مجھے سُنسان برابر رکھے
اپنی راہوں کی قیامت سے اُلجھتا بھی رہا
اور منزل کے بھی ارمان برابر رکھے
میں نے ہونا تھا ہُوا شہر بدر اے ساحل
میں نے سچ بول کے نقصان برابر رکھے
ساحل سلہری
No comments:
Post a Comment