میں روتی ہوں مگر کہتی نہیں ہوں
بہت حساس ہوں، ضدی نہیں ہوں
گُھٹن ہے اور گہری بے بسی ہے
کسے بتلاؤں میں اچھی نہیں ہوں
گزرتی ہوں میں کیسی کیفیت سے
بہت دن سے میں روئی بھی نہیں ہوں
خزاں رُت ہے ہوائے بے بسی ہے
مگر میں کُھل کے مُرجھاتی نہیں ہوں
کوئی آواز مجھ کو ڈھونڈتی ہے
مگرمیں خود کو بھی ملتی نہیں ہوں
میں گاؤں زاد تھی سو سہہ رہی ہوں
مِرا یہ دُکھ ہے میں شہری نہیں ہوں
میں عورت ہوں بدن کی ایک دوکاں
کسی کے دل کی دلچسپی نہیں ہوں
ماریہ نقوی
No comments:
Post a Comment