Menses
میں پچھلے جنم میں
کسی ایک عورت کی صورت میں پیدا ہوا تھا
بمشکل میں جب سولہ کی عمر تک آ پہنچی
تو بِن پوچھے شادی کی رسی سے میرے
حسیں ہاتھ باندھے گئے تھے
مگر زندگی میں تو ہوتا ہی رہتا ہے یہ سب
عجب بات یہ ہے
کہ جب ماہواری کے دن درد سے چُور ہو کر
میں بے نُور ہو کر
تھکاوٹ کے رشتے کو طلّاق دیتی
تو گھر کے سبھی کام بکھرے ہی رہتے
میں خود سے پریشاں
خیالوں کے جھرمٹ میں کھو کر
بہت خود کو مایوسیوں سے بچاتی
مِرے خون میں جب جراثیم کا روگ بہتا
تُو میرا مجازی خدا مجھ سے کہتا
کہ اُٹھ جا زیادہ اداکاری مت کر
اُٹھو اور مجھے کھانا دے کر
یہ گھر کے سبھی کام نمٹا کے سونا
کہ اتنی آسانی سے ملتا نہیں ہے کسی کو بچھونا
بہت اور باتیں بھی سننے کو ملتی
جو انسانی تہذیب سے ماورا ہیں
میں ناخوشگواری میں کہتی
نہیں مجھ سے یہ کام ہوتے نہیں ہیں
اِسی بات کے رد میں غصے سے بھر کر
وہ رُخسار پر میرے تھپڑ لگاتا
میں دل ہی میں کہتی
خدا کاش عورت مجھے نہ بناتا
ولید سورانی
No comments:
Post a Comment