پھر آج اُن کی نامِ خدا یاد آ گئی
مجبور دل کی سعئ وفا یاد آ گئی
یاد آ گیا وہ میرے لیے اُن کا اضطراب
بکھری ہوئی وہ زلفِ رسا یاد آ گئی
پلکوں آنسوؤں کے گُہر یاد آ گئے
سہمی ہوئی لبوں پہ دُعا یاد آ گئی
خونِ جگر ٹپکنے لگا پھر قلم سے آج
پھر اُن ہتھیلیوں کی حنا یاد آ گئی
جنگل میں دو دلوں کی وہ سرگوشیاں بہم
برگد پہ فاختہ کی صدا یاد آ گئی
پھر ہم نے ساری رات نہ تکیے پہ سر رکھا
پھر اُن کے گیسووں کی ہوا یاد آ گئی
غنچوں سے پُھوٹتی ہوئی خوشبو جو دیکھ لی
شاعر کو گُلرخوں کی حیا یاد آ گئی
مدت کے بعد شہر سے وارفتگانِ شوق
گُزرے تو دلبروں کو جفا یاد آ گئی
رکھا کسی نے دستِ حنائی جو دوش پر
صفدر کو اپنی لغزشِ پا یاد آ گئی
صفدر حسین زیدی
No comments:
Post a Comment