Monday, 29 May 2023

پھر آج ان کی نام خدا یاد آ گئی

 پھر آج اُن کی نامِ خدا یاد آ گئی

مجبور دل کی سعئ وفا یاد آ گئی

یاد آ گیا وہ میرے لیے اُن کا اضطراب

بکھری ہوئی وہ زلفِ رسا یاد آ گئی

پلکوں آنسوؤں کے گُہر یاد آ گئے

سہمی ہوئی لبوں پہ دُعا یاد آ گئی

خونِ جگر ٹپکنے لگا پھر قلم سے آج

پھر اُن ہتھیلیوں کی حنا یاد آ گئی

جنگل میں دو دلوں کی وہ سرگوشیاں بہم

برگد پہ فاختہ کی صدا یاد آ گئی

پھر ہم نے ساری رات نہ تکیے پہ سر رکھا

پھر اُن کے گیسووں کی ہوا یاد آ گئی

غنچوں سے پُھوٹتی ہوئی خوشبو جو دیکھ لی

شاعر کو گُلرخوں کی حیا یاد آ گئی

مدت کے بعد شہر سے وارفتگانِ شوق

گُزرے تو دلبروں کو جفا یاد آ گئی

رکھا کسی نے دستِ حنائی جو دوش پر

صفدر کو اپنی لغزشِ پا یاد آ گئی


صفدر حسین زیدی 

No comments:

Post a Comment