Tuesday, 30 May 2023

جانے میری کیا طلب تھی اور کیا درکار تھا

 جانے میری کیا طلب تھی اور کیا درکار تھا

زیست کا ہر ایک لمحہ باعثِ آزار تھا

ہر گلی کوچے میں یوں تو چارہ گر موجود تھے

پھر بھی اس کے شہر کا ہر آدمی بیمار تھا

کانچ کے گلدان پر بیٹھی تھی تتلی غمزدہ

پھول اور تتلی کی چاہت کا عجب اظہار تھا

پڑھنے والا سو رہا تھا، اور اس کے سامنے

چائے کی پیالی تھی، کوئی ادھ کُھلا اخبار تھا

دیکھ کر اس کو یقیناً سوچتا تھا ہر کوئی

جیسے اک فنکار کا وہ آخری شہکار تھا

ہر قدم پر ابتلاء تھی، ہر قدم پر امتحاں

عشق کے رستے کا ہر اک مرحلہ دُشوار تھا

ہر کوئی تھا منفرد عادل جہانِ شوق میں

ہر کسی کی زندگی کا مختلف معیار تھا


عادل صدیقی

شبیر صدیقی

No comments:

Post a Comment