اشک کی تمنا ہے
کہ اسے جیا جائے
عمر کی روانی نے
اک طلب ہے کر دی کہ
ڈھلتی ہوئی سانسوں کو
شُکر سے لیا جائے
ماس اُکھڑا اُکھڑا ہے
ہڈیوں سے نالاں ہے
اس کا کیا کیا جائے؟
اب اسے سِیا جائے؟
زندگی کے سب جذبے
جن میں کچھ برائی تھی
سب کا یہ تقاضا ہے
شکوہ نہ کیا جائے
بس انہیں جیا جائے
آنکھ جو معلّق تھی
کہکشاں کی ڈوری سے
اک شہابِ ثاقب کے
لال ہے تصادم سے
اشک بہتا جائے تو
اس کو نہ پِیا جائے
بس انہیں جِیا جائے
علیم ارحم
No comments:
Post a Comment