Wednesday, 24 May 2023

اشک کی تمنا ہے کہ اسے جیا جائے

 اشک کی تمنا ہے

کہ اسے جیا جائے

عمر کی روانی نے

اک طلب ہے کر دی کہ

ڈھلتی ہوئی سانسوں کو

شُکر سے لیا جائے

ماس اُکھڑا اُکھڑا ہے

ہڈیوں سے نالاں ہے

اس کا کیا کیا جائے؟

اب اسے سِیا جائے؟

زندگی کے سب جذبے

جن میں کچھ برائی تھی

سب کا یہ تقاضا ہے

شکوہ نہ کیا جائے

بس انہیں جیا جائے

آنکھ جو معلّق تھی

کہکشاں کی ڈوری سے

اک شہابِ ثاقب کے

لال ہے تصادم سے

اشک بہتا جائے تو

اس کو نہ پِیا جائے 

بس انہیں جِیا جائے


علیم ارحم

No comments:

Post a Comment