کب مِرے ساتھ ساتھ روتی ہے
جب میں سو جاؤں رات روتی ہے
تیری انگشت سے اترتے ہی
ہر انگھوٹھی کی دھات روتی ہے
ایک رانی ہے جو حویلی میں
پہن کر زیورات روتی ہے
جو ادا ہو نہ تیرے ہونٹوں سے
وہ سیہ بخت بات روتی ہے
ایک زنجیر سے بندھی ہوئی سوچ
دیکھ کر ممکنات روتی ہے
اک طرف چل پڑے ہیں خیمہ زن
اک طرف شش جہات روتی ہے
تیری یکسوئی کے تعاقب میں
فرش پر ایک ذات روتی ہے
احمد افتخار
No comments:
Post a Comment