Wednesday, 24 May 2023

بحر جذبات میں آیا ہے تلاطم کیسا

 ارمان


بحرِ جذبات میں آیا ہے تلاطم کیسا

میں جو بکھرا ہوں تو اب مجھ کو سمٹنا ہو گا

میں نے کیا کیا نہ کیا دل کے بہلنے کے لیے

مجھ کو معلوم ہے ہر غم سے نمٹنا ہو گا


سرِ بازار تماشے کی طرح ہیں ارماں

چارہ گر کوئی مداوا تو نہیں ہے دل کا

میں نے کوشش تو بہت کی کہ سکوں پا جاؤں

دل مگر آج بھی ہے کل کی طرح بے چارہ


خیر آباد نہیں ہے تو نہ آباد سہی

ویسے برباد ہی ہے دل تو کوئی بات نہیں

کون سا وقت ہے وہ جس میں نہیں ذکر تِرا

کون سا لمحہ ہے وہ جس میں تِرا ساتھ نہیں


آرزو کر کے بھی کیا فائدہ ہو گا دل کو

کوئی ارماں کبھی شرمندۂ معنی نہ ہوا

ہائے جینے کے لیے دل کو تسلی دی تھی

لمحۂ زیست کوئی وجہِ تسلی نہ ہوا


رحمان جامی

No comments:

Post a Comment