غم نہ کر جو فرقت میں بسر ہوتی ہے
ظلمتِ شب ہی سے تائیدِ سحر ہوتی ہے
اب نہ آئے کوئی تیر خطا ہو کیوں کر
ہر جفا مجھ پہ بہ عنوانِ دِگر ہوتی ہے
رشک کی آگ میں جلتا ہے تُو اے دل ناحق
حسنِ بے باک کی بے باک نظر ہوتی ہے
کون واقف ہے تِرے رنگِ طبیعت سے مگر
جس کو ہوتی ہے خبر، اس کو خبر ہوتی ہے
اپنی آنکھوں میں مَلک اس کو جگہ دیتے ہیں
جس گنہ گار پہ رحمت کی نظر ہوتی ہے
دل بچا لینا ہے دشوار کسی سے ساغر
کس قدر مست نظر شعبدہ گر ہوتی ہے
ساغر اجمیری
No comments:
Post a Comment