ہم سے وہ آ ملے ہیں بڑی رد و کد کے بعد
ریشم سی گفتگو بھی ہوئی نیک و بد کے بعد
بادِ صبا پہ چھائے ہیں جھکڑ سموم کے
گلشن ہے خار خار گلِ سر سبد کے بعد
دامن کو جھاڑ پونچھ کے آیا ہے تیرہ بخت
نیکی کوئی رہی نہیں بغض و حسد کے بعد
وجہِ نشاطِ دل ہے فقط اس کا ذکرِ خیر
وہ جو ازل سے پہلے تھا وہ جو ابد کے بعد
گالی گلوچ، طنز ہو جائز جہاں، وہاں
کس رخ پہ بحث جائے گی اس شد و مد کے بعد
پھر بھی یہی طریق رہا اہلِ عقل کا
مشکل ہے گرچہ صبر کسی ایک حد کے بعد
دل تھا کہ آپ اپنی اداؤں پہ مر گیا
دھڑکن تھی بند ہو گئی اک سرو قد کے بعد
احمد! نمائشی تھی، ذرا سی تھی، خام تھی
احساں جتا رہے ہیں وہ ایسی مدد کے بعد
شکیل احمد
No comments:
Post a Comment