یہ عجیب میرے نصیب تھے
وہ جو دُور تھے تو قریب تھے
وہ ہی اب بھی ہیں مِرے ہم نشیں
وہ ہی کل بھی میرے حبیب تھے
مِری زندگی کے وہ ہم سفر
مِری منزلوں سے قریب تھے
کوئی رنج و غم نہ ملال تھا
کہ وہ دن بھی کتنے عجیب تھے
تھا جنوں ان ہی کا عطا کیا
وہ جنوں کے میرے طبیب تھے
میں تھی حق پرست کچھ اس قدر
مِرے ساتھ دار و صلیب تھے
جو درخشاں چپ رہے عمر بھر
مِرے عشق کے وہ نقیب تھے
درخشاں صدیقی
No comments:
Post a Comment