صبحِ طرب کو کون پکارے ہم کو ہے غم کی شام بہت
پہروں پہروں جب دل تڑپے، ملتا ہے آرام بہت
صبحِ وصل اور صبحِ مسرت سب کے لیے کب ہوتی ہے
ہم سے غم کے ماروں کو ہے مے خانے کی شام بہت
زخم ملے اور خنجر بھی کچھ خار و سنگ و نشتر بھی
ہم نے یارو شہرِ وفا میں پائے ہیں انعام بہت
میری طرف سے محلوں محلوں جا کر یہ پیغام کہو
محل کی ہر دیوار کے پیچھے برپا ہے کہرام بہت
عشق پیامِ جد و عمل ہے، عشق جہادِ زندہ دلاں
آج بھی ہے ہر دشتِ طلب میں اہل جنوں کا نام بہت
کیسی کیسی پریم پجارن، زر کی پجارن بن بیٹھیں
راج محل میں کب ہے میرا مدھوبن میں ہیں شیام بہت
عشق میں رسوائی ہے مقدر میر ہوں یا وہ غالب ہوں
ہم بھی پیام اب کوچہ کوچہ ہو ہی گئے بدنام بہت
پیام فتحپوری
No comments:
Post a Comment