بازار حسن و شوق میں کمتر نہیں ہوں میں
چھو کر مجھے بھی دیکھ کہ خنجر نہیں ہوں میں
جس مے کدے میں جام اچھالے نہیں گئے
اس میکدے میں ہونے سے بہتر نہیں ہوں میں
باندھی گئی ہے پیر میں زنجیر کس لیے
میں تو ہوں اک خیال کہ پیکر نہیں ہوں میں
تازہ رہوں گا قلب و خرد میں ہر ایک وقت
جس کو بلا سکو گے وہ منظر نہیں ہوں میں
اب بھی ہیں کچھ نقاب ہٹانے ہیں جو مجھے
دار و رسن کے قد کے برابر نہیں ہوں میں
گھبرا گئے ہو دیکھ کے وسعت مری کہ میں
بس ایک آب جو ہوں سمندر نہیں ہوں میں
دیکھو مجھے کہ مجھ میں ہیں روشن جہاں کے راز
رستے میں جو پڑا ہے وہ پتھر نہیں ہوں میں
ہیں انتظار میں سبھی راسخؔ یہاں پہ کیوں
نکلے گا کیسے چاند جو چھت پر نہیں ہوں میں
راسخ شاہد
No comments:
Post a Comment