گر نہیں وصف تو پھر عیب اچھالے میرے
عشق میں کچھ تو رہیں زندہ حوالے میرے
خوش نہیں آیا مجھے اس کا مزاجِ تشکیک
خوش نہیں آئے اسے ڈھنگ نرالے میرے
وہ عجب ساعتِ خوشرنگ میں بچھڑا مجھ سے
رنج و غم بھی نہ کِیے اس نے حوالے میرے
جو بہت دور ہے، کیا اس سے توقع رکھوں
جو مِرے پاس ہے، سنتا نہیں نالے میرے
ایک مدت سے کوئی طعنہ و دشنام نہیں
کیا مجھے بھول گئے چاہنے والے میرے
میں بھی ہیرو تھا، مِرے گِرد بھی رہتا تھا ہجوم
رنگ تھا کِھلتا ہوا، بال تھے کالے میرے
اب وہ آنکھیں ہیں نہ آنکھوں میں چمک ہے نازش
لے گیا ساتھ ہی اِک شخص اجالے میرے
شبیر نازش
No comments:
Post a Comment