تمنائے دل بے تاب حاصل ہوتی جاتی ہے
خلش جو دل میں میرے رگِ دل ہوتی جاتی ہے
یہ آنکھیں اور بے تاب نظارہ اے معاذاللہ
بساطِ آئینہ جلوہ گہِ دل ہوتی جاتی ہے
حجابِ رخ اٹھایا کس ادا سے حسن کے مالک
کہ جلووں سے تِرے مدہوش محفل ہوتی جاتی ہے
چھپے کیونکر چھپائے غم و اندوہ کی صورت
میری صورت سے ظاہر حالتِ دل ہوتی جاتی ہے
جنوں انگیزئی دل کی شکایت کیجیے کس سے
نگاہِ آسماں طوق و سلاسل ہوتی جاتی ہے
زہے قسمت میرا شوقِ شہادت رنگ لایا ہے
لہو سے سرخرو اب تیغِ قاتل ہوتی جاتی ہے
بہت آسان ہو جئے گا انور عشق کا سجدہ
طبیعت خود جنوں کی سمت مائل ہوتی جاتی ہے
انور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment