لالہ و گل کا لہو بھی رائیگاں ہونے لگا
پنکھڑی پر قطرۂ شبنم گراں ہونے لگا
رفتہ رفتہ آنکھ سے آنسو رواں ہونے لگا
وقت کے خاکے میں نقش جاوداں ہونے لگا
اس طرح تحریر کے الفاظ لو دینے لگے
دیکھتے ہی دیکھتے کاغذ دھواں ہونے لگا
سلسلے تحریر کے منزل بہ منزل طے ہوئے
لفظ جو میں نے لکھا وہ کارواں ہونے لگا
جب سے نظریں محو تزئین نظارا ہو گئیں
آئینہ عجز نمائش کی زباں ہونے لگا
کیا خزاں نے رنگ و نکہت پر کمندیں ڈال دیں
کیوں لب گل کا تبسم بھی فغاں ہونے لگا
روشنی کی سلطنت بھی گل بداماں ہو گئی
ایک شعلہ موم پر جب حکمراں ہونے لگا
مطرب نظامی
No comments:
Post a Comment