جاری و ساری ہے جلسہ عشق کا
دے رہا ہے فیض کتبہ عشق کا
نا مکمل ہو گا وہ میرے بغیر
جب لکھا جائے گا شجرہ عشق کا
پہلے دن سے عشق میری درسگاہ
میرے کاندھے پر ہے بستہ عشق کا
رات دن چوپال میں ہیں رونقیں
رات دن چلتا ہے قصہ عشق کا
تا قیامت وہ اتر سکتا نہیں
چڑھ گیا جس کا نشہ عشق کا
رومی نے مجھ کو بتایا خواب میں
کس طرف ہے سیدھا قبلہ عشق کا
ایک ہفتے کی اگر ہو زندگی
ہم منائیں پھر وہ ہفتہ عشق کا
حُسن کی گلیوں میں ہے اپنا قیام
کہتے ہیں قصبے کو قصبہ عشق کا
اس قدر میں نے ریاضت کی ظفر
اب تو خود لگتا ہوں قصہ عشق کا
ظفر محی الدین
No comments:
Post a Comment