Saturday, 27 May 2023

ان سے کیا رسم و راہ کر بیٹھے

ان سے کیا رسم و راہ کر بیٹھے

دل کی دنیا تباہ کر بیٹھے

رک گیا ہاتھ میرے قاتل کا

زیر خنجر جب آہ کر بیٹھے

بے وفائی تو ان کی تھی معلوم

پھر بھی ہم ان کی چاہ کر بیٹھے

رحمت حق تِرے بھروسے پر

ہم گنہ پر گناہ کر بیٹھے

روئے تاباں کو دیکھ کر تیرے

سر کو خم مہر و ماہ کر بیٹھے

صحن‌ گلشن ہوا خزاں بر دوش

ہم قفس میں جو آہ کر بیٹھے

ساری دنیا ہوئی مِری دشمن

وہ جو مجھ پر نگاہ کر بیٹھے

راس آئی نہ زیست جب ہم کو

موت سے رسم و راہ کر بیٹھے

رحم کیا کھائیں وہ سمیع مجھ پر

قلب ہی جب سیاہ کر بیٹھے


سمیع سلطانپوری

سمیع اللہ

No comments:

Post a Comment