بچھڑ کے تجھ سے مِرے لیے ہیں عذاب نیندیں
کہ رتجگوں کی زمیں پہ لگتی ہیں خواب نیندیں
کبھی کبھی اب بھی میری آنکھیں وہ ڈھونڈتی ہیں
ملاپ موسم کی خوبصورت گلاب نیندیں
میں رتجگوں کا سوال لے کر گیا ہوں جب بھی
تو ان کی جانب سے مل سکیں نہ جواب نیندیں
سمجھ سے بالا عجیب فطرت کا فلسفہ ہے
حقیقتوں کے بدن کو بخشیں سراب نیندیں
وہ جن میں تیرا رخِ مقدس ہی جھانکتا تھا
کہاں گئیں آنکھ سے وہ عزت مآب نیندیں
اسی لیے تو میں ایک مدت سے جاگتا ہوں
کہ گزری راتوں کا مانگ لیں ناحساب نیندیں
سمیع اللہ عرفی
No comments:
Post a Comment