Friday, 26 May 2023

مرے سخن میں ترا ذکر گر نہیں ہو گا

 مِرے سخن میں تِرا ذکر گر نہیں ہو گا

مِرا کہا ہوا کچھ معتبر نہیں ہو گا

میں چاہتا ہوں کہ تُو مجھ کو بیوفا سمجھے

مِرا یہ چاہا ہوا بھی مگر نہیں ہو گا

تجھے بھی مجھ سے بچھڑنے کا رنج ہو گا مگر

کہ جس قدر ہے مجھے اس قدر نہیں ہو گا

مجھے پلایا ہے وہ زہر زندگی نے کہ اب

کسی بھی زہر کا مجھ پر اثر نہیں ہو گا

تو کیوں نہ آج ملاقات اس سے کی جائے

کہ آج سنڈے ہے وہ کام پر نہیں ہو گا

یہ راہِ عشق ہے اس راہ میں کہیں پر بھی

کوئی بھی سایہ کوئی بھی شجر نہیں ہو گا

یہ جرمِ عشق تھا عجلت کا فیصلہ یعنی

خطا معاف یہ بارِ دگر نہیں ہو گا


معراج نقوی

No comments:

Post a Comment