اندیشۂ زوال ہے دستِ ہنر کے ساتھ
جو آج اک کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
الجھی ہوئی کہانی سنو گے، سناؤں میں
اک دردِ لا دوا ہے دلِ بے خبر کے ساتھ
لمبی مسافتوں سے ہمیں خوف کچھ نہیں
راہزن بھی اپنے ساتھ ہے اک ہمسفر کے ساتھ
بے چینیاں کمال پہ پہنچی ہیں یوں کہ آج
ہم چل پڑے ہیں چپکے سے پھر نامہ بر کے ساتھ
وہ حالِ دل بھی جان گیا کچھ کہے بغیر
ہم مسکرا دئیے تھے یونہی چشمِ تر کے ساتھ
آساں نہیں تھا تم سے بچھڑنے کا معاملہ
کیا کیا اٹھائے رنجِ سفر بحر و بر کے ساتھ
خاموشیوں نے اپنا بھرم رکھ لیا کہ اب
دل بھی ہے بے قرار مِرے دیدہ ور کے ساتھ
سولی چڑھیں کہ پار لگیں جانیۓ کہ کیا
ہو گا خیالِ یار مگر خوف و ڈر کے ساتھ
شائستہ مفتی
No comments:
Post a Comment