Thursday 25 May 2023

تلاطم دل آج بہت گھبراتا ہے

 تلاطم


دل آج بہت گھبراتا ہے 


دل آج بہت گھبراتا ہے 

طوفان و تلاطم کے پالے گرداب سنبھالے ہیں مجھ کو 

اک راحت جاں ہمدم کی طرح کچھ خواب سنبھالے ہیں مجھ کو 

یوں میرے غموں کے سنجیدہ آداب سنبھالے ہیں مجھ کو 

اور میری تباہی پر خنداں احباب سنبھالے ہیں مجھ کو 

ہر زخم جگر سمجھاتا ہے 

دل آج بہت گھبراتا ہے 


گھبرا کے غرور فاقہ کشی پہلو میں بٹھا لیتا ہے مجھے 

شرما کے سرور تشنہ لبی دامن میں چھپا لیتا ہے مجھے 

سمجھا کے فریب نوحہ گری باتوں میں لگا لیتا ہے مجھے 

بہلا کے سکوت نِیم شبی زانو پہ سلا لیتا ہے مجھے 

ہر شے سے مگر اُکتاتا ہے 

دل آج بہت گھبراتا ہے 


کیا آج مِری خاموشی بھی اک شور فغاں بن جائے گی 

جھنجھلا کے نگاہ یاس مِری خود شعلہ فشاں بن جائے گی 

پہلو سے بگولے اٹھیں گے ہر سانس دھواں بن جائے گی 

جیسے کہ مِری ناکامی بھی اک عزم جواں بن جائے گی 

شعلے کی طرح لہراتا ہے 

دل آج بہت گھبراتا ہے 


خرمن کی حمیت جاگی ہے اے برق و شرار اب کیا ہو گا 

برہم ہے نظام ہستی بھی اے درد جگر اب کیا ہو گا 

ہر وعدۂ فردا روٹھ گیا اے شام و سحر اب کیا ہو گا 

چونکا ہے ضمیر وہم و گماں اے ذوقِ نظر اب کیا ہو گا 

کیا جانئے کیا سمجھاتا ہے 

دل آج بہت گھبراتا ہے 


کیا آج میں اپنے سوئے ہوئے جذبات جنوں بیدار کروں 

سیلاب حوادث بن جاؤں بربادیٔ صد آزاد کروں 

نکلوں میں حدود امکاں سے طوفاں سے نگاہیں چار کروں 

اک تلخ تبسم کو لے کر دنیائے ستم پر وار کروں 

کیا جانیے کیا سمجھاتا ہے 

دل آج بہت گھبراتا ہے 


عفت زیبا کاکوروی

No comments:

Post a Comment