زندگی کی راہوں میں یہ غبار کیسا ہے
ہر طرف زمانے میں خلفشار کیسا ہے
کیسی بادشاہی ہے، اور کہاں کی مُختاری
بس میں کچھ نہیں تو پھر اختیار کیسا ہے
جانے کس کے وعدوں پر دل کو اعتبار آیا
جانے میری نظروں کو انتظار کیسا ہے
پوچھتے ہیں سب اس سے راز اس کی آنکھوں کا
بِن پیۓ یہ کیا مستی؟ اور خمار کیسا ہے
جب کسی سہارے پر اعتماد ہی کم ہو
پھر کسی کی ہستی پر انحصار کیسا ہے
اب تو ایک دُوجے سے ہر کسی کو ہے غایت
کس طرح کی چاہت ہے، اور یہ پیار کیسا ہے
کل تو اس کی آنکھوں میں غم کی دُھول اُڑتی تھی
آج اس کے چہرے پر مرغزار کیسا ہے
جس کی عمر گزری ہو سائے کی تمنا میں
اب یہ اس کے مرقد پر شاخسار کیسا ہے
میں کسی کی کمزوری دیکھتا نہیں عادل
میں تو یہ پرکھتا ہوں، میرا یار کیسا ہے
عادل صدیقی
شبیر صدیقی
No comments:
Post a Comment