یہی گلہ مِرا تجھ سے ہے اور خدا سے بھی
گزارتے ہو معافی سے بھی سزا سے بھی
وہ پہلے صرف مِری خواہشوں سے کھیلتا تھا
وہ کھیلتا ہے مگر اب مِری انا سے بھی
اب اور کیا میں اسے دوں ضمانتِ غمِ عشق
جو مطمئن نہیں ہوتا مِری وفا سے بھی
ہمارے دل میں جدائی کی آگ جلتی ہے
ہماری دوستی اب ہو گئی ہوا سے بھی
ہر ایک حکم بجا لاتا تھا کبھی میرا
جو مانتا نہیں اب بات التجا سے بھی
میں اس کے ساتھ ہی سب کچھ وہیں پہ چھوڑ آئی
گِلے نہیں ہیں مِرے دل میں اب ذرا سے بھی
وہ جاتے جاتے مجھے بُت بنا گیا تھا سحر
اثر جو کرتے نہیں مجھ پہ اب دلاسے بھی
عفراء بتول سحر
No comments:
Post a Comment