سوچا میں ایک شب کہ ہوں یا نہیں ہوں میں
کیا آسماں پہ ہوں، یا بر زمیں ہوں میں
اس طوطئ خیال کے پر تھی نہ بال تھے
اڑنے لگا خیال کہ تنہا نہیں ہوں میں
جانا میں جب کہ دنیا ہی کافر کی جا ہے
جانے لگا سفر سے، خدا را نہیں ہوں میں
پھر با حجاب اپنے گزارا ہوں رات دن
ہوں جبکہ سایہ اس کا جانا وہی ہوں میں
سعدی! یہ کس خیال سے گویا ہوا ہے تُو
دنیا میں اس طرح کہ؛ گویا نہیں ہوں میں
سعداللہ سعدی
No comments:
Post a Comment