زخمِ جگر کا کوئی مداوا نہ کر سکے
وعدہ جو کر لیا تھا وہ ایفا نہ کر سکے
ایسا بھی کوئی دل ہے جہانِ خراب میں
جس کو وہ چشمِ مست شکیبا نہ کر سکے
ہم دل زدوں کی پیاس بجھانے کے واسطے
صحرا کرے وہ کام جو دریا نہ کر سکے
ترکِ وفا کی ہم کو سہولت نہیں ہے دوست
سوچا بھی تھا کریں، مگر ایسا نہ کر سکے
جانِ ادا کو دیکھ کے آہیں بھرا کیۓ
یادش بخیر! عرضِ تمنا نہ کر سکے
دھندلائیں گے نقوش اس سیمیں بدن کے کیا
جس کو غبارِ وقت بھی میلا نہ کر سکے
بشریٰ مسعود
No comments:
Post a Comment