جب سے ہوئیں ہیں تجھ سے دو چار آنکھیں
تب سے ہو گئیں دیوانی، مِری یار آنکھیں
اب تو فقط تجھ کو ہی دیکھنا چاہتی ہیں
ہر پل ہر گھڑی مِری یہ لا چار آنکھیں
گر تِری خاطر اور کچھ نہ ہو سکا تو
دوں گی میں تجھ پہ اپنی یہ وار آنکھیں
کرتی ہوں ہر دم یہی دعا یا خدا
نہ ہوں کبھی بھی اس کی آبشار آنکھیں
لوگ خوش تھے کہ کسی کی جان تو بچ گئی
نابینا ہونے والا کر رہا تھا اصرار، آنکھیں
میری دید کو اپنے دیدار کی خیرات دے دو
کہتی ہیں تیری محبت کی خواستگار آنکھیں
یوں دیکھ کر بدلتے رویے اپنوں کے
ہو گئیں ہیں دنیا سے مِری بیزار آنکھیں
تجھے خبر ہی نہیں کہ کئی برس تیرے لیے
کر رہی ہیں سیدہ کی انتظار آنکھیں
ماریہ نقوی
No comments:
Post a Comment