جب سے ہم مسکرانا بھول گئے
تب سے لکھتے ہیں کہنا بھول گئے
ایک ہم ہی نہ جی سکے، ورنہ
جینے والے تو مرنا بھول گئے
کیا کہا ہم سے ملنے آئے ہیں
لگتا وعدے سے پھرنا بھول گئے
اس نے بانہیں گلے میں ڈالی اور
ہم شکایت ہی کرنا بھول گئے
ایسے روئے بے اختیار آج
جیسے دکھ درد سہنا بھول گئے
دل کی بستی بسانے نکلے تھے
ایسے اجڑے کہ بسنا بھول گئے
ہائے یہ وصل آیا بھی تو کب
جب گلے سے لگانا بھول گئے
جو بنے پھرتے ہیں فرشتے یہاں
کیوں وہ انسان بننا بھول گئے
ہم بھی بیمار رہتے تھے اکثر
مفلسی میں بہانہ کرنا بھول گئے
زبیر قلزم
No comments:
Post a Comment