اب تو ساری عمر گزرے گی تمہارے پیار میں
یوں نہیں کہ صرف میرا خواب ارزانی میں ہے
آسماں کا چاند بھی تالاب کے پانی میں ہے
ہر طرف مدہوش سی پھیلی ہوئی ہے اک فضا
کون سا جادو نہ جانے رات کی رانی میں ہے
میرے دل میں گو محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
پر ابھی تک لطف سارا دل کی نادانی میں ہے
اپنے ساتھی کو فضا میں چھوڑ تو آیا، مگر
پیڑ پر بیٹھا پرندہ اب پریشانی میں ہے
کون دریا کے کنارے پھینکتا جاتا ہے پھول
ڈوبتے پانی کے اندر عکس حیرانی میں ہے
اپنے اندر کی اداسی اوڑھ کر بیٹھا ہوں میں
لطف تنہائی کا جیسے خانہ ویرانی میں ہے
مقبول حسین سید
No comments:
Post a Comment