Sunday, 28 May 2023

میری کہانی میں ایک ستمگر ہے

 ستمگر

میری کہانی میں

ایک ستمگر ہے

گلاب کی پنکھڑیوں سے پوچھو

ان کا حال کیا ہوا

کس طرح انہیں روندا گیا

کتنی تلخی سے انہیں مسلا گیا

میں مصیبت کے میدان میں پڑا ہوں 

پکارتا ہوں، چیختا ہوں، گندگی میں ہوں

میرا ستمگر مجھ سے اس طرح نفرت کرتا ہے 

جیسے میں بدترین سلوک کا مستحق ہوں

وہ میری قبر پر تھوکے گا 

میری زندگی نے موت کو بوسہ دیا ہے

مجھے کبھی بھی پسند نہیں تھا

جس راستے پر مجھے جانا پڑا

اگر میرا ماضی دھول نہ ہوا ہوتا تو 

شاید میرا ستمگر مجھے اپنا لیتا

ستمگر نے لکھ بھیجا ہے

میں تم سے محبت نہیں کرتا

کیا وہ کبھی کرے گا

اس نے میری شہ رگ پہ خنجر چلایا

اس نے میری کلائی میں استرا گھونپ دیا

میری آنکھیں بند ہو گئیں

میں نے اپنی مٹھی نچوڑ لی

میں ان داغوں کے ساتھ جی رہا ہوں 

جو اس نے مجھے دیے ہیں

جو نفرت اس نے مجھے تحفے میں دی ہے

یہ اس کی غلطی نہیں تھی 

پھر بھی میں پریشان ہوں

کیونکہ یہ گلاب کی پنکھڑیاں 

حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں 

میں آئینے میں دیکھتا ہوں

صرف یہ دیکھنے کے لیے

میری کہانی میں ستمگر ہے


عمران عباس

No comments:

Post a Comment