ستمگر
میری کہانی میں
ایک ستمگر ہے
گلاب کی پنکھڑیوں سے پوچھو
ان کا حال کیا ہوا
کس طرح انہیں روندا گیا
کتنی تلخی سے انہیں مسلا گیا
میں مصیبت کے میدان میں پڑا ہوں
پکارتا ہوں، چیختا ہوں، گندگی میں ہوں
میرا ستمگر مجھ سے اس طرح نفرت کرتا ہے
جیسے میں بدترین سلوک کا مستحق ہوں
وہ میری قبر پر تھوکے گا
میری زندگی نے موت کو بوسہ دیا ہے
مجھے کبھی بھی پسند نہیں تھا
جس راستے پر مجھے جانا پڑا
اگر میرا ماضی دھول نہ ہوا ہوتا تو
شاید میرا ستمگر مجھے اپنا لیتا
ستمگر نے لکھ بھیجا ہے
میں تم سے محبت نہیں کرتا
کیا وہ کبھی کرے گا
اس نے میری شہ رگ پہ خنجر چلایا
اس نے میری کلائی میں استرا گھونپ دیا
میری آنکھیں بند ہو گئیں
میں نے اپنی مٹھی نچوڑ لی
میں ان داغوں کے ساتھ جی رہا ہوں
جو اس نے مجھے دیے ہیں
جو نفرت اس نے مجھے تحفے میں دی ہے
یہ اس کی غلطی نہیں تھی
پھر بھی میں پریشان ہوں
کیونکہ یہ گلاب کی پنکھڑیاں
حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں
میں آئینے میں دیکھتا ہوں
صرف یہ دیکھنے کے لیے
میری کہانی میں ستمگر ہے
عمران عباس
No comments:
Post a Comment