Saturday, 27 May 2023

بے کیف مسرت بھی مصیبت سی لگے ہے

 بے کیف مسرت بھی مصیبت سی لگے ہے

اے دوست مجھے غم کی ضرورت سی لگے ہے

روداد محبت کی کسی کو نہ سناؤ

کچھ لوگ ہیں جن کو یہ شکایت سی لگے ہے

دم توڑتی قدروں کو بچانے کی اچھل کود

فطرت کے اصولوں سے بغاوت سی لگے ہے

دنیائے تماشا تو بدلتی ہے کئی رنگ

گہہ خواب لگے گاہ حقیقت سی لگے ہے

احساس کا دھوکا ہے یہ جذبات کا جادو

اپنوں کی عداوت بھی محبت سی لگے ہے

بے ربط خیالوں کے شگوفوں کی لطافت

مجبور غریبوں کی ذہانت سی لگے ہے

طالب کو شرافت پہ بڑا ناز تھا، لیکن

اب اس کی شرافت بھی حماقت سی لگے ہے


طالب چکوالی

منوہر لال کپور

No comments:

Post a Comment