مہیب سی شب چمکتے دن پر جھپٹ رہی ہے
وبا کی رُت تو مرن کے منتر ہی رٹ رہی ہے
کھرچ کھرچ کر نکال لیتا سفیدی دن کی
گھڑی پہ چھوڑا سو رات آنکھوں میں کٹ رہی ہے
اداس رنگوں کے قہقہوں کا شور سن کر
ہماری گلیوں کی مسکراہٹ سمٹ رہی ہے
تُو حظ اٹھانا ہی چاہتا ہے تو بتا دوں
مِری سہولت کئی کھلونوں میں بٹ رہی ہے
میں تھوڑا تھوڑا ہوں نفسیاتی بتا کے سب کو
کمینی شاطر بڑی سہولت سے کٹ رہی ہے
سگانِ وحشت کا غول اندر تڑپ رہا ہے
میں شور کرتا، زبان لیکن پلٹ رہی ہے
ابو لویزا علی
No comments:
Post a Comment