Friday, 26 May 2023

دریا کھنگالنا مرا آسان کر گیا

 دریا کھنگالنا مِرا آسان کر گیا 

تہہ میں اتار کے مجھے خود ہی بھنور گیا

کیوں ہیں چراغ پر یہ ہوائیں چراغ پا 

لگتا ہے کوئی کان ہواؤں کے بھر گیا

دنیا کے اس سفر میں ضروری ہے ہمسفر 

ورنہ سمجھیۓ آپ کا لطفِ سفر گیا

منصف میں تیرے عدل کی تعریف کیا کروں 

الزام اس کے قتل کا اس کے ہی سر گیا

جب تک تھا سر پہ چاند تھا دریا شباب پر 

ڈھلتے ہی چاند دریا کا پانی اتر گیا

دنیا کی ٹھوکروں میں یقیناً رہے گا تو 

مالک کا در جو چھوڑ کے زاہد اگر گیا


تجمل حسین زاہد

No comments:

Post a Comment