لمحات غمِ عشق کے بے باک بہت تھے
قصے میری چاہت کے خطرناک بہت تھے
میں خون کے دھاگوں سے انہیں سی نہیں پایا
زخموں کے گریبان مِرے چاک بہت تھے
آئی ہے بلا ایک فلک سے گمان تھا
جب غور کیا میں نے تو افلاک بہت تھے
آ جاتا ہے خود موت کو رہ رہ کے پسینہ
تیور میری ہستی کے غضب ناک بہت تھے
افکار کے پھولوں کو بھی جب غور سے دیکھا
کم یاب تھے گل اور خس و خاشاک بہت تھے
سینے میں اندھیرے کے تھا پوشیدہ سویرا
زہروں کو چھپائے ہوئے تریاک بہت تھے
کچھ لوگوں کی روحوں پہ تو قابض رہا شیطاں
تھے اجلے لباس ان کے وہ ناپاک بہت تھے
میں تھا جو ابھرتا گیا توقیر بھنور سے
ہستی میں میری دلدل و لوشاک بہت تھے
توقیر زیدی
No comments:
Post a Comment