انقلاب اور بھی ہیں گردشیں ایام کہ بس
اور بدلے گا نظامِ سحر و شام کہ بس
منزلِ عشق میں ہر گام پہ دشواری ہے
نظر آغاز میں آتا ہے وہ انجام کہ بس
امتحانِ دلِ خود دار مجھے لینا ہے
تُو بھی چیخ اٹھے گی اے گردشِ ایام کہ بس
ذوقِ محفل کا بھی ساقی کا نظر کو ہے خیال
کہہ نہ دے پی کے کوئی ایک ہی دو جام کہ بس
میری وحشت کو تماشا بھی تو بننے نہ دیا
جب بڑھا جوشِ جنوں مل گئے احکام کہ بس
تیرے ہر جور کی اللہ کرے عمرِ دراز
اک وفا کیش نے پایا ہے وہ انعام کہ بس
انگلیاں اٹھتی ہیں میخانے میں ساغر کی طرف
اور کچھ باقی ہے اے فطرتِ بدنام کہ بس
ساغر اجمیری
No comments:
Post a Comment