Tuesday, 23 May 2023

لفظ کچھ اور ہیں ابرو کا اشارہ کچھ اور

 لفظ کچھ اور ہیں ابرو کا اشارہ کچھ اور

اب کے لگتا ہے کہ ظالم کا ہے منشا کچھ اور

مجھ کو معلوم نہ تھا ایسی بھی ہوتی ہو گی

زندگی کا تھا تصور میں تو نقشا کچھ اور

یوں خموشی سے نہاتا نہیں خوں میں اپنے

اے مِری خاک وطن تجھ سے ہے وعدہ کچھ اور

بد گمانی بھی نہیں اتنی کسی سے اچھی

میں نے کچھ اور کہا آپ نے سمجھا کچھ اور

اور بھی کتنے طریقے تھے ستم کے رائج

ظلم ڈھانے کا مگر تیرا طریقہ کچھ اور

ظلم کی عمر بہت لمبی نہیں ہوتی ہے

صبر سے کر لو ستم اس کے گوارہ کچھ اور

کھیل کچھ اور مداری کے ابھی باقی ہیں

چاہتے بھی ہیں کہ دیکھیں یہ تماشہ کچھ اور

زندگی جیسی بھی ہو شکوہ نہیں کرتے دانش

درد مندوں کا ہے جینے کا طریقہ کچھ اور


امتیاز دانش ندوی

No comments:

Post a Comment