حقیقتوں کی طلب میں سراب دیکھے ہیں
ہمارے دل نے بھی کیا کیا عذاب دیکھے ہیں
تم اِن بُجھی بُجھی آنکھوں میں دیکھتے کیا ہو
تمام عمر ان آنکھوں نے خواب دیکھے ہیں
کرم کے طعنے نہ دو ہم نے اس زمانے کے
ستم ہی دیکھے ہیں اور بے حساب دیکھے ہیں
پھر آج شاخِ نشیمن کی خیر ہو تسنیم
پھر آج خواب میں کِھلتے گلاب دیکھے ہیں
تسنیم صدیقی
No comments:
Post a Comment