گلوں کو شعلہ مزاجی سکھائی جاتی ہے
چمن کی آگ چمن میں لگائی جاتی ہے
جنونِ فرقہ پرستی ارے معاذ اللہ
ہر اک قدم پہ قیامت اٹھائی جاتی ہے
وہ آگ جس نے مِرے گلستاں کو پھونک دیا
نگاہ شیخ و برہمن میں پائی جاتی ہے
ہمیں پہ ختم نہیں کفر عشق اے ناصح
بتوں کے ساتھ خدا کی خدائی جاتی ہے
نہیں یہ غم کہ رسا نالۂ حزیں نہ ہوئے
فلک پہ آج مِری نارسائی جاتی ہے
اب ان کے قول و قسم پر نہیں ہے دل کو یقیں
ستم گروں سے کہیں بے وفائی جاتی ہے
ان آنسوؤں کو نہ کر رائیگاں ارے ناداں
کہیں یہ دولت غم یوں لٹائی جاتی ہے
مفر ٭شماتت ہمسایہ سے جمال نہیں
یہ برق گرتی نہیں ہے، گرائی جاتی ہے
مسعود اختر جمال
٭شماتت: کسی کے نقصان پر اظہار خوشی، استہزا کرنا یا ہنسنا، خندہ زنی کرنا، لفظی چوٹ کرنا
No comments:
Post a Comment