گاہے یہ توجہ، یہ کرم کس کے لیے ہیں
اور گاہے تغافل کے ستم کس کے لیے ہیں
ہنگامِ شب و روز میں الجھے ہوئے لوگو
یہ عیش و طرب رنج و الم کس کے لیے ہیں
لشکر تو کسی جنگ پہ آمادہ نہیں ہیں
ہاتھوں میں مگر تیغ و علم کس کے لیے ہیں
ہم پر بھی کبھی کھول کوئی مقصدِ ہستی
ہم کو بھی بتا دوست کہ ہم کس کے لیے ہیں
جب تجھ کو بچھڑنے کا کوئی دُکھ بھی نہیں ہے
اے دوست! پھر آنکھیں تِری نم کس کے لیے ہیں
وہ کون ہے جو لے گا تِرے گال کا بوسہ
آخر یہ تِری زُلف کے خم کس کے لیے ہیں
مزمل بانڈے
No comments:
Post a Comment