انا زدہ تھا کہیں پر کہیں پر آن زدہ
زمیں کی زد سے نکلنے تک آسمان زدہ
یہاں پہ دشت و سمندر کی بات مت کرنا
ہمارے شہر کا ہر شخص ہے مکان زدہ
خیال و خواب کے موسم بدلنے والے ہیں
ہجوم وہم و تصور میں ہے گمان زدہ
تو بال و پر کی نمائش پہ حرف آ جاتا
ہوا کا رخ نہ پلٹتا اگر اڑان زدہ
ہمارے بعد ہمیں ڈھونڈنے کے سب رستے
ہماری خاک میں مل جائیں گے نشان زدہ
بھنور سے ڈوب کے ابھرا تو یہ کھلا مجھ پر
سمندری تھیں ہوائیں میں بادبان زدہ
سب اپنا حرف معانی بنا رہے ہیں شرر
یہ لفظ لفظ تو صدیوں سے ہیں زبان زدہ
کلیم حیدر شرر
No comments:
Post a Comment