Wednesday, 24 May 2023

انا زدہ تھا کہیں پر کہیں پر آن زدہ

 انا زدہ تھا کہیں پر کہیں پر آن زدہ

زمیں کی زد سے نکلنے تک آسمان زدہ

یہاں پہ دشت و سمندر کی بات مت کرنا

ہمارے شہر کا ہر شخص ہے مکان زدہ

خیال و خواب کے موسم بدلنے والے ہیں

ہجوم وہم و تصور میں ہے گمان زدہ

تو بال و پر کی نمائش پہ حرف آ جاتا

ہوا کا رخ نہ پلٹتا اگر اڑان زدہ

ہمارے بعد ہمیں ڈھونڈنے کے سب رستے

ہماری خاک میں مل جائیں گے نشان زدہ

بھنور سے ڈوب کے ابھرا تو یہ کھلا مجھ پر

سمندری تھیں ہوائیں میں بادبان زدہ

سب اپنا حرف معانی بنا رہے ہیں شرر

یہ لفظ لفظ تو صدیوں سے ہیں زبان زدہ


کلیم حیدر شرر

No comments:

Post a Comment