Thursday, 1 June 2023

وہ پردے سے نکل کر سامنے جب بے حجاب آیا

 وہ پردے سے نکل کر سامنے جب بے حجاب آیا

جہانِ عشق میں یک بارگی اک انقلاب آیا

زمیں کے ذرہ ذرہ سے نمایاں ہو گئے جلوے

سرِ گلزار وہ رشک قمر جب بے حجاب آیا

مُکرر زندگانی کا مزا ہو جائے گا حاصل

دمِ آخر بھی قاصد لے کے گر خط کا جواب آیا

مُقدر سے مِرے دونوں کے دونوں بے وفا نکلے

نہ عمر بے وفا پلٹی نہ پھر جا کر شباب آیا

وفورِ شرم سے اس آفتاب حسن کے آگے

جہاں کا ہر حسیں ڈالے ہوئے منہ پر نقاب آیا

دل‌ بے تاب و طاقت کو تسلی کچھ ہوئی حاصل

پیام اس بُت کے آنے کا جو وقت اضطراب آیا

عجب پُر کیف عالم ہے زمانہ مست ہے انور

کہ ان کے چودھویں من میں نظر رنگ شراب آیا


انور سہارنپوری

No comments:

Post a Comment