تھوڑی سی پی تو تھوڑی طبیعت سنبھل گئی
خود اپنا خون پینے کی عادت بدل گئی
تھا لازمی سو مجھ کو مِری ذات کھل گئی
تلوے کی خاک زندگی چہرے پہ مل گئی
ہستی درونِ ذات کی حدت سے جل گئی
ہم کو بلا سا پایا بلا سر سے ٹل گئی
ہستی نمو نہ پائی تو کیسے مچل گئی
اف رائیگاں سی اور بھی اک شام ڈھل گئی
سانسوں کی ڈور ربط سے آگے نکل گئی
یہ زندگی بھی آج گئی بس یا کل گئی
بدلا تھا جس کے واسطے انداز زندگی
وہ زیست بات بات پہ پہلو بدل گئی
کچھ دیر کو سکوت میں تھا عالمِ جنوں
پھر یوں ہوا کہ خود ہی تِری بات چل گئی
ابو لویزا علی
No comments:
Post a Comment