اب اس سے بڑھ کے مجھے اور کیا سزا دے گا
وہ بن کے دوست مِرا مجھ کو ہی دغا دے گا
مِری نشانی وہ رکھے گا اپنے پاس، مگر
حسیں گلاب کو اوراق میں دبا دے گا
تڑپتا دیکھ کے مجھ کو وہ خوش تو ہو گا بہت
میں ڈھونڈ پاؤں نہ اس کو پتہ چھپا دے گا
ہمارے حصے کا اک پھول بھی نہ دے گا وہ
ہماری راہ میں کانٹے مگر بچھا دے گا
مجید اس سے محبت کی ہے امید فضول
دکھا کے جام فقط تشنگی بڑھا دے گا
عبدالمجید خان
No comments:
Post a Comment