Friday, 19 May 2023

اب اس سے بڑھ کے مجھے اور کیا سزا دے گا

 اب اس سے بڑھ کے مجھے اور کیا سزا دے گا

وہ بن کے دوست مِرا مجھ کو ہی دغا دے گا

مِری نشانی وہ رکھے گا اپنے پاس، مگر

حسیں گلاب کو اوراق میں دبا دے گا

تڑپتا دیکھ کے مجھ کو وہ خوش تو ہو گا بہت

میں ڈھونڈ پاؤں نہ اس کو پتہ چھپا دے گا

ہمارے حصے کا اک پھول بھی نہ دے گا وہ

ہماری راہ میں کانٹے مگر بچھا دے گا

مجید اس سے محبت کی ہے امید فضول

دکھا کے جام فقط تشنگی بڑھا دے گا


عبدالمجید خان

No comments:

Post a Comment