چاہتا جو بھی ہے وہ کہہ کے گزر جاتا ہے
دل حساس اس احساس سے مر جاتا ہے
ذہن میں بات بزرگوں کی تبھی بیٹھتی ہے
جب جوانی کا نشہ سر سے اتر جاتا ہے
جب انا میری ضرورت کا گلا گھونٹتی ہے
رنگ خود داری کے چہرہ کا اتر جاتا ہے
جھوٹی تعریف سے ہوتی ہے مسرت اس کو
آئینہ کوئی دکھا دے تو بپھر جاتا ہے
ڈسنے لگتی ہے مِری خانہ بدوشی مجھ کو
جب کوئی پنچھی کبھی شام کو گھر جاتا ہے
جرم کرتا ہے کوئی اور یہاں پر عالم
اور الزام کسی اور کے سر جاتا ہے
عالم نظامی
No comments:
Post a Comment