Friday 19 May 2023

چاہتا جو بھی ہے وہ کہہ کے گزر جاتا ہے

 چاہتا جو بھی ہے وہ کہہ کے گزر جاتا ہے

دل حساس اس احساس سے مر جاتا ہے

ذہن میں بات بزرگوں کی تبھی بیٹھتی ہے

جب جوانی کا نشہ سر سے اتر جاتا ہے

جب انا میری ضرورت کا گلا گھونٹتی ہے

رنگ خود داری کے چہرہ کا اتر جاتا ہے

جھوٹی تعریف سے ہوتی ہے مسرت اس کو

آئینہ کوئی دکھا دے تو بپھر جاتا ہے

ڈسنے لگتی ہے مِری خانہ بدوشی مجھ کو

جب کوئی پنچھی کبھی شام کو گھر جاتا ہے

جرم کرتا ہے کوئی اور یہاں پر عالم

اور الزام کسی اور کے سر جاتا ہے


عالم نظامی

No comments:

Post a Comment