ہماری لاش کی تصویر بھی اتاری گئی
پھر اس کے پاؤں سے زنجیر بھی اتاری گئی
شہید ہونے کا پہلے ہُنر اتارا گیا
پھر آسمان سے شمشیر بھی اتاری گئی
ثمر کو عزمِ مصمم کے ساتھ جوڑا گیا
قلم اٹھانے پہ تحریر بھی اتاری گئی
فقط بدن ہی گھسیٹا نہیں سرِ بازار
ہمارے خواب سے تعبیر بھی اتاری گئی
جب آسماں سے محبت کا جرم اترا تھا
تب انتظار کی تعزیر بھی اتاری گئی
گلے میں ڈالی گئی پہلے نام کی تختی
پھر ایک ایک کی تصویر بھی اتاری گئی
ہمارے جیسوں کو دیوانگی عطا کر کے
دوائے تلخی تقدیر بھی اتاری گئی
ادریس آزاد
No comments:
Post a Comment