روز کیا خواب کی تعبیر بدل جاتی ہے
ہاتھ اور پاؤں کی زنجیر بدل جاتی ہے
جاں پناہ آپ کی پُر جوش تقاریروں سے
کب مِرے شہر کی تقدیر بدل جاتی ہے
شعر کہنے کی مشقت کو اٹھا لینے سے
لکھی قسمت کی یہ تحریر بدل جاتی ہے
رات خوابوں میں اسی در پہ گزر جاتی ہے
آنکھ کُھلنے پہ یہ جاگیر بدل جاتی ہے
سارا دن گھر کے جھمیلوں میں گزر جاتا ہے
شام کو حالتِ دلگیر بدل جاتی ہے
جانے والے جو چلے جاتے ہیں تنہا کرکے
زندگی جینے کی تدبیر بدل جاتی ہے
اپنی ہستی کو مٹا کر ہی یہ جانا ہے سحر
اپنی ہی ذات کی تفسیر بدل جاتی ہے
تابندہ سحر
No comments:
Post a Comment