زخموں کے پھول، داغِ جگر چھوڑ جاؤں گا
دامن میں زندگی کے گُہر چھوڑ جاؤں گا
لے جاؤں گا بچا کے دلِ خود نگر کو مَیں
اہلِ ستم کے واسطے سر چھوڑ جاؤں گا
روشن ہر ایک موڑ پہ کر جاؤں گا چراغ
تابندہ زندگی کا سفر چھوڑ جاؤں گا
الفت سے کر کے خون کے پیاسوں کو شرمسار
لڑنے کا دشمنوں سے ہنر چھوڑ جاؤں گا
دیدہ وروں کی راہنمائی کے واسطے
آیاتِ حسنِ فکر و نظر چھوڑ جاؤں گا
رگ رگ میں ان کی رقص کرے گی حیاتِ نو
بے حوصلوں میں ذوقِ سفر چھوڑ جاؤں گا
دنیا سنے گی میرے ترانوں کی بازگشت
میں جاؤں گا تو اپنا اثر چھوڑ جاؤں گا
اے انقلابِ نو! میں چمن میں تِرے لیے
شایانِ شان راہگزر چھوڑ جاؤں گا
عزیز احمد بگھروی
No comments:
Post a Comment